PPSC URDU MCQs Set 1
اردو ادب
'الفاروق' شبلی نعمانی کی سوانح عمری ہے جس میں حضرت عمر فاروقؓ کی زندگی، فتوحات، عدل و انصاف اور اسلامی نظام حکومت کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ یہ کتاب اسلامی تاریخ کا مستند ماخذ سمجھی جاتی ہے اور اردو ادب میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔
'طفل مکتب' ایک ترکیب ہے جس سے مراد ایسا بچہ ہے جو ابتدائی تعلیم کے مرحلے پر ہو۔ اردو ادب میں اس ترکیب کو معصومیت، سادہ لوحی اور کم علمی کے اظہار کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
تلمیح ایک ادبی صنعت ہے جس میں شاعر کسی مشہور واقعہ یا شخصیت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس صنعت سے کلام میں گہرائی اور اثر بڑھتا ہے۔ قاری فوری طور پر اس اشارے کو پہچان کر شعر کے حسن اور معنویت کو بہتر سمجھ لیتا ہے۔
علامہ اقبال مولانا جلال الدین رومی کو اپنا مرشدِ معنوی مانتے تھے۔ رومی کی مثنوی اور صوفیانہ فلسفے نے اقبال کے فکر و فن پر گہرا اثر ڈالا۔ اقبال نے اپنی کئی نظموں میں رومی کو رہنما اور پیر کہا ہے۔
کلیم الدین احمد نے غزل کو نیم وحشی صنف کہا کیونکہ ان کے مطابق غزل میں موضوعات کی ترتیب کم اور جذباتی شدت زیادہ پائی جاتی ہے۔ ان کا یہ قول اردو تنقید میں مشہور ہوا اور کافی مباحث کا سبب بنا۔
مرزا غالب کے خطوط اردو نثر میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ ان کے خطوط نے رسمی انداز کو توڑ کر گفتگو کے انداز کو نثر میں متعارف کرایا۔ ان کی نثر سادگی اور شگفتگی سے بھرپور ہے۔
مولانا محمد علی جوہر تحریک خلافت کے رہنما تھے۔ وہ لندن کانفرنس کے دوران وفات پا گئے اور وصیت کے مطابق بیت المقدس میں دفن کیے گئے۔ ان کی قبر آج بھی فلسطین میں موجود ہے۔
'ماورا' ن۔م۔ راشد کا پہلا شعری مجموعہ ہے جو اردو میں آزاد نظم کے آغاز کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس میں جدید خیالات اور علامتی اسلوب کو جگہ دی گئی۔
راشد الخیری کو مصور غم کہا جاتا ہے کیونکہ ان کی تحریروں میں غم، دکھ اور معاشرتی محرومیاں نمایاں ہیں۔ ان کا مقصد اصلاح معاشرہ اور بیداری تھا۔
'تہذیب الاخلاق' سر سید احمد خان کا اصلاحی رسالہ تھا۔ یہ انگریزی رسائل اسپیکٹیٹر اور ٹیٹلر کے طرز پر شائع کیا گیا تاکہ مسلمانوں کو تعلیم و اصلاح کی طرف مائل کیا جا سکے۔
اس شعر میں تضاد دو بار آیا ہے، 'یہ دنیا' اور 'وہ دنیا'، 'جینے' اور 'مرنے' کے الفاظ میں۔ تضاد کلام میں زور اور معنوی کشش پیدا کرتا ہے۔
یہ اردو کا مشہور محاورہ ہے جس کا مطلب ہے ایک ہی چیز سے کئی فائدے اٹھانا۔ یہ روزمرہ گفتگو میں عام استعمال ہوتا ہے۔
مومن خان مومن دبستان دہلی کے مشہور شاعر تھے۔ انہوں نے درباری شاعری کے بجائے غزل اور عاشقانہ موضوعات پر کلام کیا۔
شبلی نعمانی نے اردو ادب میں تقابلی تنقید کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے مشرقی اور مغربی ادب کا موازنہ کر کے نئی راہیں دکھائیں۔
نظیر اکبر آبادی کو عوامی شاعر کہا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے عام لوگوں کی زندگی، جذبات اور مسائل کو شاعری میں بیان کیا۔
ہزارہ یونیورسٹی صوبہ خیبر پختونخوا، مانسہرہ میں واقع ہے۔ یہ ایک اہم تعلیمی ادارہ ہے جو مختلف شعبوں میں اعلیٰ تعلیم فراہم کرتا ہے۔
'ذہین طلبہ' ایک مرکب توصیفی ہے جس میں 'ذہین' بطور صفت اور 'طلبہ' بطور موصوف استعمال ہوا ہے۔
'آنندی' غلام عباس کا مشہور افسانہ ہے جو معاشرتی مسائل اور انسانی کمزوریوں کو اجاگر کرتا ہے۔
استعارہ کے لغوی معنی ادھار لینا ہیں۔ یہ ایک صنعت ہے جس میں کسی چیز کو دوسری چیز کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔
دن، رات اور سال گرامر میں ظرف زماں کہلاتے ہیں کیونکہ یہ وقت کی نشاندہی کرتے ہیں۔
'غبار خاطر' خطوط پر مشتمل ہے جو ابوالکلام آزاد نے قید کے دوران لکھے۔ یہ مکتوب نگاری کی بہترین مثال ہے۔
'خضر راہ' میں علامہ اقبال نے حضرت خضر سے پانچ سوالات کیے ہیں جن کے ذریعے فکری مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
'داستان سے افسانے تک' سید وقار عظیم کی تنقیدی تصنیف ہے جس میں اردو کہانی کی ارتقا پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
'صحیفہ' مجلس ترقی ادب کا ایک تحقیقی جریدہ ہے جس میں علمی و ادبی مضامین شائع ہوتے ہیں۔
رومانویت ایک ادبی رجحان ہے جس میں جدت، تخیل اور نئی قدروں کی تلاش کو اہمیت دی جاتی ہے۔
'ساقی نامہ' علامہ اقبال کی مشہور نظم ہے جو مثنوی کی صنف میں لکھی گئی ہے۔
توقیف نگاری کا مطلب ہے عبارت میں رموز و اوقاف کا درست استعمال تاکہ جملہ واضح ہو۔
جوش ملیح آبادی کو شاعر شباب کہا جاتا ہے کیونکہ ان کی شاعری میں جوانی، ولولہ اور انقلاب نمایاں ہے۔
'غالب شکن اور یگانہ' نجیب جمال کی تصنیف ہے جس میں یگانہ چنگیزی اور غالب کا موازنہ کیا گیا ہے۔
مجید امجد کو پٹواری کا شاعر کہا جاتا ہے کیونکہ ان کی شاعری میں دیہی زندگی اور عام انسانوں کا عکس ملتا ہے۔
'حاصل گھاٹ' بانو قدسیہ کا مشہور ناول ہے جس میں زندگی اور انسانی رشتوں کو فلسفیانہ انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
'جواری' غلام عباس کا افسانہ ہے جس میں انسانی لالچ اور کمزوریوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔
قدرت اللہ شہاب نے اپنا مشہور مسودہ شارٹ ہینڈ میں لکھا جو ان کی محنت اور مہارت کو ظاہر کرتا ہے۔
یہ محاورہ ذاتی فائدہ حاصل کرنے کے عمل کو ظاہر کرتا ہے، اکثر منفی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔
'اقبال جرم' کے دیباچے کو قدرت اللہ شہاب نے لکھا جو اپنی سادہ مگر پر اثر تحریروں کے لیے مشہور تھے۔
ڈرامہ کی باقاعدہ تعریف سب سے پہلے یونانی فلسفی ارسطو نے اپنی تصنیف 'بوطیقا' میں کی۔
یہ مشہور شعر میر تقی میر کا ہے جو اپنی سادگی اور نازک خیالی کی وجہ سے مشہور ہیں۔
میر حسن کا مشہور مثنوی نما کلام 'کوزہ گر' چار حصوں پر مشتمل ہے۔
'طلوع اسلام' علامہ اقبال کی مشہور نظم ہے جو پابند نظم کی اعلیٰ مثال سمجھی جاتی ہے۔
یہ نظم علامہ اقبال کے مجموعہ 'بال جبرئیل' میں شامل ہے۔
'اردو کیسے لکھیں' رشید حسن خان کی تصنیف ہے جو زبان کی درستگی پر ہے۔
'چاہ زنخدان' سے مراد ٹھوڑی میں پڑنے والا گڑھا ہے، یہ ایک استعارہ بھی سمجھا جاتا ہے۔
مشفق خواجہ کا مشہور کالمی عنوان 'خامہ بگوش' تھا۔
'گنج ہائے گراں' ایک ادبی کتاب ہے جو مختلف خاکوں پر مشتمل ہے۔
یہ شعر معروف شاعر مصطفی زیدی کا ہے جو اپنے انقلابی اور جذباتی کلام کے لیے مشہور تھے۔
ایسا شعر جس میں دونوں مصرعے آپس میں معنوی ربط نہ رکھتے ہوں، دولخت کہلاتا ہے۔
یہ رسالہ انجمن ترقی اردو کا ہے جو زبان و ادب کے فروغ کے لیے شائع ہوتا ہے۔
'ہم صفیر' سے مراد ہم آواز یا ہم خیال لوگ ہیں، اکثر اسے آزادی کے معنوں میں بھی لیا جاتا ہے۔
اوزان اور بحور کی جانچ کا علم بدیع کہلاتا ہے جو شاعری کے حسن کو نکھارتا ہے۔
'مغرب کے تنقیدی اصول' سجاد باقر رضوی کی تنقیدی کتاب ہے جس میں مغربی ادب کے اصول بیان کیے گئے ہیں۔
'تشکیل جدید' ناصر عباس نیئر کی کتاب ہے جس میں مابعد جدیدیت اور تنقیدی مباحث شامل ہیں۔
غزل کے لغوی معنی عورتوں سے باتیں کرنا ہیں، مگر ادبی اصطلاح میں یہ ایک صنف سخن ہے۔
اس شعر میں صنعت تضاد استعمال ہوئی ہے کیونکہ آگ اور پانی ایک دوسرے کی ضد ہیں۔
اُردو ادب میں 'گلدستہ' ایسی تحریر یا مجموعہ کو کہا جاتا ہے جس میں مختلف شعراء کی منتخب شاعری کو یکجا کیا گیا ہو۔ اس طرح کے گلدستے مختلف ذوق رکھنے والے قارئین کے لیے دلچسپی کا باعث بنتے ہیں کیونکہ ان میں متنوع مضامین اور شاعرانہ رنگ ایک ہی جگہ پر موجود ہوتے ہیں۔
'زر داغ دل' ایک ادبی ترکیب ہے جو دل کی کیفیت اور جذباتی دولت کو ظاہر کرتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دل کے جذبات اور احساسات کو دولت کے برابر سمجھا جائے۔ یہ ترکیب اکثر شعری اسلوب میں استعمال ہوتی ہے تاکہ انسانی دل کی اہمیت اور قدر کو اجاگر کیا جا سکے۔
مرات النظیر ایسی صنعت ہے جس میں شاعر ایک دوسرے سے مطابقت رکھنے والے یا قریبی الفاظ استعمال کرتا ہے۔ اس صنعت سے کلام میں خوبصورتی اور ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔ قاری کو کلام میں ربط اور روانی محسوس ہوتی ہے، جو شعر کی تاثیر کو بڑھا دیتی ہے۔
یہ جملہ اس کیفیت کو ظاہر کرتا ہے جس میں انسان شدت سے کسی گھڑی کا انتظار کرتا ہے اور وہ لمحہ آخر کار آ ہی جاتا ہے۔ ادبی زبان میں یہ ترکیب امید، انتظار اور جذباتی کیفیت کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
'میرے چاند سوجا' میں لفظ 'چاند' ایک استعارہ کے طور پر استعمال ہوا ہے جو محبوب یا بچے کی معصومیت اور خوبصورتی کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس طرح کا بیان اردو شاعری میں عام ہے اور اس سے کلام میں نرمی اور محبت کا رنگ آ جاتا ہے۔
'ادبیات' ایک مشہور ادبی رسالہ ہے جو سہ ماہی بنیادوں پر شائع ہوتا ہے۔ اس میں مختلف ادبی، تحقیقی اور تنقیدی مضامین شامل کیے جاتے ہیں۔ یہ رسالہ اردو ادب کی ترویج اور ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
ہجو اردو شاعری کی ایک صنف ہے جس میں کسی شخص یا رویے کو طنز، تمسخر یا غصے کے انداز میں بیان کیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد برائیوں کو اجاگر کرنا اور سننے والے کو تفریح یا بیداری فراہم کرنا ہوتا ہے۔
'بنات' ایک مشہور ادبی و اصلاحی رسالہ تھا جسے علامہ راشد الخیری نے جاری کیا۔ اس کا مقصد خواتین کی تعلیم و تربیت اور اصلاح معاشرہ تھا۔ یہ رسالہ خواتین کے مسائل اجاگر کرنے کے لیے نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔
'ایک عام آدمی کا خواب' رشید امجد کی مشہور تصنیف ہے۔ اس میں عام آدمی کی زندگی، خواہشات اور مسائل کو حقیقت پسندانہ انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ کتاب اردو ادب میں سماجی شعور کی مثال ہے۔
یہ ایک مشہور ضرب المثل ہے جس کا مطلب ہے کہ نتیجہ ہمیشہ ایک ہی جیسا نکلے گا، حالات بدلنے کے باوجود کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اس کہاوت کو اردو معاشرت میں عام طور پر طنزیہ انداز میں استعمال کیا جاتا ہے۔
ترقی پسند تحریک کا پہلا اجلاس لکھنؤ میں ہوا اور اس کی صدارت مشہور ادیب پریم چند نے کی۔ یہ تحریک ادب میں سماجی انصاف اور حقیقت نگاری کے فروغ کے لیے قائم ہوئی۔
یہ شعر علامہ اقبال نے داغ دہلوی کی تعریف میں کہا۔ داغ دہلوی کو ان کی عشقیہ شاعری اور غزل گوئی کی وجہ سے اردو ادب میں بلند مقام حاصل ہے۔
اردو ادب میں صوفیانہ رنگ نمایاں ہے۔ جہاں خواجہ میر درد صوفی شاعر ہیں، وہاں صوفی نثر نگار خواجہ حسن نظامی کو مانا جاتا ہے۔ ان کی تحریروں میں صوفیانہ افکار جھلکتے ہیں۔
'جو رہی سو بے خبر رہی' اردو کی مشہور شاعرہ ادا جعفری کی تصنیف ہے۔ اس میں ان کے تجربات، جذبات اور مشاہدات کا عکس موجود ہے۔
یہ مصرع علامتی طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ 'جوئے کم آب' کمزور دھارے کو ظاہر کرتی ہے اور بندگی میں انسان اپنی قوت کھو دیتا ہے۔ یہ بیان غلامی اور بے بسی کی کیفیت اجاگر کرتا ہے۔
'گنجے فرشتے' اور 'ممی' سعادت حسن منٹو کے مشہور افسانے ہیں۔ منٹو کی کہانیاں معاشرتی حقیقتوں اور انسانی نفسیات کو اجاگر کرتی ہیں۔
یہ کہاوت اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ آدمی بیکار رہنے کے بجائے مفت میں کام کرے تو زیادہ بہتر ہے۔ یہ کہاوت محنت اور وقت کے بہتر استعمال کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
'خوجی' کا کردار اردو کے مشہور ناول نگار رتن ناتھ سرشار نے تخلیق کیا۔ یہ کردار مزاح اور طنز کی وجہ سے بہت مشہور ہوا۔
یہ شعر علامہ اقبال نے فاطمہ بنت عبداللہ کو مخاطب کر کے کہا جو ایک نڈر عرب لڑکی تھیں۔ (اسلامی وضاحت سے گریز کیا گیا۔)
شاہد احمد دہلوی اردو ادب کے مشہور ادیب تھے اور ان کی وجہ شہرت خاکہ نگاری ہے۔ ان کے خاکے سادہ، حقیقت پسندانہ اور پراثر انداز میں لکھے گئے ہیں۔
یہ شعر مشہور شاعرہ پروین شاکر کا ہے۔ ان کی شاعری میں نسائی احساسات، محبت اور جدت نمایاں ہیں۔
صنعت تجنیس وہ صنعت ہے جس میں بظاہر الفاظ ایک جیسے لگتے ہیں مگر ان کے معنی مختلف ہوتے ہیں۔ یہ صنعت کلام میں حسن اور ذہانت پیدا کرتی ہے۔
'بے زبانی زبان ہو جائے' مشہور گلوکارہ ملکہ پکھراج کی آپ بیتی ہے۔ اس میں انہوں نے اپنی زندگی، فن اور موسیقی کے سفر کو بیان کیا۔
'شاہ تاک' کا مطلب ہے انگور کی بیل۔ یہ لفظ عموماً ادبی زبان اور تشبیہات میں استعمال ہوتا ہے۔
'اردو ادب کے پچاس سال' غفور شاہ قاسم کی تصنیف ہے جس میں ادب کے پچاس سالہ دور پر تنقیدی نظر ڈالی گئی ہے۔
'قحوائے عبارت' ایک محاورہ ہے جس کا مطلب عبارت کا اصل مفہوم یا مطلب لینا ہے۔
'ابلیس کی مجلس شوریٰ' علامہ اقبال کی نظم ہے جس میں پانچ مشیروں کا ذکر ہے۔ (اسلامی وضاحت شامل نہیں کی گئی۔)
کلیم الدین احمد کی 'اردو شاعری پر ایک نظر' تنقیدی کتاب ہے جس میں انہوں نے اردو شاعری کے مختلف پہلوؤں پر بحث کی ہے۔
سلمان گیلانی اور انعام الحق دونوں مزاحیہ شاعری کے لیے مشہور ہیں۔ ان کے کلام میں طنز و مزاح کا عنصر نمایاں ہے۔
محی الدین قادری نے لسانیات کو زبان کی پیدائش، ارتقا اور موت سے متعلق علم قرار دیا۔ یہ ان کا لسانیات پر گہرا مطالعہ ظاہر کرتا ہے۔
'شگوفہ' ایک مزاحیہ رسالہ ہے جو حیدرآباد سے جاری ہوتا ہے۔ اس میں طنز و مزاح پر مبنی مضامین شائع ہوتے ہیں۔
'فریقین کے درمیان معاہدہ ہو گیا' ایک درست اور بامعنی جملہ ہے جو زبان کے اصولوں کے مطابق ہے۔
'اردو' لفظ سب سے پہلے بابر کی خودنوشت 'تزک بابری' میں استعمال ہوا۔ یہ تاریخی طور پر اردو زبان کے ارتقا میں ایک اہم حوالہ ہے۔
'تنقید کا پس منظر' اردو کے معروف نقاد جیلانی کامران کی کتاب ہے جس میں تنقید کے مختلف رجحانات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
یہ دور شبلی نعمانی کے حیات کا ہے۔ وہ اردو ادب کے بڑے نقاد، محقق اور سوانح نگار تھے۔
'گرد راہ' اختر حسین رائے پوری کی مشہور تصنیف ہے جس میں سماجی موضوعات کو بیان کیا گیا ہے۔
'عام لسانیات' گیان چند جین کی کتاب ہے جو لسانیات کے اصولوں پر مبنی ہے۔
زندگی کے تلخ پہلوؤں کو ہمدردی اور ہلکے طنزیہ انداز میں بیان کرنا مزاح نگاری کہلاتا ہے۔
یہ نعت مشہور شاعر خالد احمد نقشبندی نے لکھی ہے۔ (اسلامی وضاحت شامل نہیں کی گئی۔)
محاکات ایسی صنعت ہے جس میں شاعر لفظوں کے ذریعے تصویر کشی کرتا ہے اور منظر قاری کے سامنے آ جاتا ہے۔
یہ کہاوت اس شخص پر صادق آتی ہے جو بڑی بڑی باتیں کرتا ہے مگر عمل میں کچھ نہیں کرتا۔
'اردو زبان کا ارتقا' خلیل صدیقی کی اہم کتاب ہے جس میں اردو زبان کی ابتدا اور ترقی کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
'سہ پہر' اور 'دوپہر' گرامر کے لحاظ سے اسم ظرف زمان کہلاتے ہیں کیونکہ یہ وقت کی نشاندہی کرتے ہیں۔
اکبر الہ آبادی اپنی طنزیہ اور مزاحیہ شاعری کے لیے مشہور ہیں۔ ان کی شاعری کی خصوصیت مغربی تقلید کی مخالفت ہے۔
'شمع اور شاعر' اردو ادب کی مشہور نظم ہے جو ترکیب بند کی صنف میں لکھی گئی ہے۔